قارئین! حضرت جی کے درس‘ موبائل (میموری کارڈ)‘ نیٹ وغیرہ پر سننے سے لاکھوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں‘ انوکھی بات یہ ہے چونکہ درس کےساتھ اسم اعظم پڑھا جاتا ہے جہاں درس چلتا ہے وہاں گھریلو الجھنیں حیرت انگیز طور پر ختم ہوجاتی ہیں‘ آپ بھی درس سنیں خواہ تھوڑا سنیں‘ روز سنیں ‘ آپ کے گھر‘ گاڑی میں ہروقت درس ہو۔
یہ کہانی سچی اور اصلی ہے۔ تمام کرداراحتیاط سے دانستہ فرضی کردئیے گئے ہیں‘ کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔
محترم شیخ الوظائف السلام علیکم! میری عمر 19 سال ہے‘ مجھے ماہنامہ عبقری نے نئی زندگی دی‘ آپ کے درس نے مجھے بتایا کہ زندگی کیسے گزارنی ہے۔ میں قارئین عبقری کو اپنی زندگی کا حال بتانا چاہتی ہوں۔ جب سے گھر میں آنکھ کھولی ہر طرف بے سکونی ملی‘ گھرمیں دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو نہ ہو‘ وقت گزرتا رہا اور پھر میں نے مڈل کے پیپرز دئیے اور میرا ایڈمیشن ایک بڑےسکول میں کروا دیا گیا‘ اس سکول میں ماحول بہت ایڈوانس تھا‘ لڑکے لڑکیاں اکٹھے کلاس میں پڑھتے‘ باتیں کرتے‘ کینٹین پر اکٹھے کھانا کھاتے‘ ایک دوسرے سے ہنستے کھیلتے‘ چھیڑچھاڑ کرتے‘ پہلے چند ماہ تو میں حیرانی اور پریشانی سے یہ سب دیکھتی اور سوچتی کہ ان لڑکیوں کے والدین ان کو کیوں کچھ نہیں کہتے؟
میرے پا س حسن‘ پیسہ اور غرور تھا جو مجھے نمایاں رکھتا!
آہستہ آہستہ میں بھی انہی کے رنگ میں رنگنے لگی اور یہاں سے میری بربادی شروع ہوگئی‘ سارے لڑکیاں لڑکے مذاق کرتے‘ آپس میں چھیڑخانی کرتے‘ میرا بھی ذہن خراب ہوگیا‘ اسی دوران میری ایک لڑکے سے دوستی ہوگئی جو بہت غریب تھا اس کی اور میرے لائف اسٹائل میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ دوستی بڑھتی گئی اور میں بہت مغرور تھی‘ کلاس میں سب سے زیادہ ذہین اور سب سے زیادہ حسین میں ہی تھی‘ سکول میں میرے ہی چرچے تھے‘ روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی‘ آہستہ آہستہ میری دوستیاں بڑھتی گئیں ہر دوسری لڑکی اور لڑکے کی خواہش ہوتی کہ میری اس سے دوستی ہوجائے‘ میرے گروپ میں جتنے بھی افراد ہوتے ان کی کینٹین کا بل میں ادا کرتی اور جس کو دل چاہتا کھری کھری سنادیتی‘ ہر کسی سے جیسا چاہتی مذاق کرتی‘ جس کا چاہتی مذاق اڑواتی‘ نجانے ان دنوں میں کن ہواؤں میں تھی‘ وقت گزرتا رہا‘ میٹرک پاس ہوگیا‘ میرے اچھے نمبرز آگئے۔
فیشن زدہ کالج کے رنگ میں جب میں رنگی تو ۔۔
ایڈمیشن ایک بڑے کالج میں ہوگیا‘ وہاں کا ماحول اور بھی فری تھا لڑکیوں کے نت نئے فیشن دیکھتی تو کانپ کر رہ جاتی‘ ساری لڑکیاں اپنے اپنے بوائے فرینڈز کی باتیں کرتیں‘ میں پھر کالج کے رنگ میں رنگنا شروع ہوگئی‘ میں بھی اسی غریب لڑکےسے ملنا شروع ہوگئی‘ روز کالج سے آتے ہوئے ملتی اور باتیں کرتے‘ میں نے اس کو موبائل بھی لے کر دے دیا‘ پھر سارا دن موبائل پر باتیں کرنے لگی‘ آہستہ آہستہ میری مزید لڑکوں سے دوستی ہوگئی میں نے اس لڑکے سے بات کرنا چھوڑ دی اور مزید امیر سے امیر لڑکے دوستی کی۔
جس کو چاہتی ٹھوکر ماردیتی‘ لوگ میرے اشاروں پر چلتے!
بس جیسے جیسے دن گزرتے جارہے تھے میں برائی کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی تھی‘لکھتے ہوئے اب ہاتھ کانپتے ہیں کہ میرے دن کہیں ہوتے اور راتیں گھر پرگزرتیں۔میرا غرور بولتا تھا‘ میں جب چاہتی کسی بھی لڑکے کو ٹھوکر مار دیتی‘ بڑے بڑے خاندانوں کے لڑکے میرے اشاروںپر چلتے‘ اسی بربادی میں دو سال گزر گئے‘ انٹر بھی اچھے نمبروں سے پاس کرلیا‘ ان دنوں گھر پر ہی تھی کہ سارا دن اور رات موبائل فون استعمال کرتی‘ ماما کچھ کہتیں تو لڑائی کرتی‘ کھانا نہ کھاتی۔ میرے اکثر قصے میری بڑی بہن کو معلوم تھے‘ ایک دفعہ ہماری لڑائی ہوئی تو میری بہن نے بھائی کو سب کچھ بتا دیا‘ بھائی نے موبائل توڑ دیا اور سم باہر پھینک دی اور مزید پڑھائی سے روک دیا۔ میں بہت روئی‘ دوسرا موبائل خرید لیا‘ اب کسی کا رابطہ نمبر نہ تھا‘ سارا دن گھر میں بور ہوتی۔
میں دو ماہ میں بالکل بدل گئی! جاننے والے حیران!
ایک دن ماہنامہ عبقری ڈائننگ ٹیبل پر پڑا دیکھا تو اٹھا کر پڑھنا شروع کردیا۔ میں یہاں یہ بتاتی چلوں کہ کافی عرصہ سے ماہنامہ عبقری میری ماما بہت شوق سے پڑھتی ہیں اور گھر میں درس بھی چلتا مگر میں نے نہ کبھی عبقری رسالہ پڑھا اور نہ ہی کبھی شیخ الوظائف کے درس سنے۔ چند صفحات پڑھے‘ رکھ کر ٹی وی لگالیا۔ شام کو پھر بور ہورہی تھی کہ ماہنامہ عبقری رسالہ کی طرف کھنچتی چلی گئی‘ رسالہ اٹھایا اور لان میں جاکر پڑھنا شروع کردیا مجھے معلوم ہی نہیں ہوا کہ تین گھنٹے میں مسلسل عبقری پڑھتی رہی اور رسالہ ختم کرکے اٹھی۔ جب رسالہ ختم ہوا تو رات ڈھل چکی تھی‘ لان کی لائٹس آن تھیں۔ اٹھی سیدھی ماما کے کمرے میں گئی ان کی الماری میں ڈھیروں ماہنامہ عبقری شمارے ترتیب سے پڑے تھے‘ میں نے تمام اٹھائے اور اپنے کمرے میں لے گئی۔ میری ماما مسکراہٹ اور حیرت بھرے انداز میں مجھے دیکھ رہی تھیں کہ ’’اسے آج کیا ہوگیا؟‘‘ پھر میں نے ایک ایک کرکے تمام عبقری شمارے پڑھے‘ میں دو ماہ میں بہت بدل چکی تھی‘ صبح کے وقت میری ماما نماز فجر اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے بعد درس لگالیتی تھیں۔
درس سنا اور بلک بلک کر رونا شروع کردیا
میں ایک دن صبح اٹھی نماز فجر ادا کی اور ماما کے پاس آکر درس سننا شروع کردیا‘ ماما نے مجھے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا‘ میں سکون کے سمندر میں چلی گئی‘ نجانے کیوں میں میرے آنسو نکلے اور میں روتی ہی چلی گئی‘ میں بلک بلک کر رو رہی تھیں جبکہ میری ماما صرف میرے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھیں‘ جب میرا رو رو کر میرا دل ہلکا ہوگیا میں نے گود سے سر اٹھایا تو میری ماما کی آنکھیں بھی اشکبار تھیں‘ انہوں نے مجھے سینے سے لگایا اور صرف اتنا کہ ’’بیٹی جو ہوگیا اس سے سچی توبہ کرلے‘ رب بڑا کریم ہے‘ آئندہ اپنی زندگی سیدھی راہ پر گزارو‘ تمہاری زندگی سے کبھی بہار ختم نہ ہوگی۔‘‘ نجانے ان الفاظ میں کیا طاقت تھی‘ میں نے نماز پڑھنا شروع کردی‘ گھر میں کبھی دوپٹہ نہیں لیا تھا‘ گھر میں دوپٹہ لیتی اور باہر حجاب کرکے جاتی‘ میری کزنز‘ بڑی بہن‘ سہیلیاں تمام اب تک حیران ہیں کہ اس کو آخر ہوا کیا؟ جب مجھ سے پوچھتی ہیں کہ تمہاری زندگی میں تبدیلی کون لایا؟ پہلے میں ماہنامہ عبقری سامنے رکھتی ہوں اور پھر اپنی ماما کا بتاتی ہوں۔ اب میں بدل چکی ہوں‘ میرے پاس موبائل بھی ہے‘ سم بھی ہے‘ روپیہ پیسہ‘ زندگی کی ہر آسائش میسر ہے‘ مگر اب ساتھ سکون بھی ہے جو کہ پہلے نہ تھا۔ میں بہت پرسکون ہوں۔ بیتی زندگی سے سچی توبہ کرچکی ہوں‘ سارا دن درس سنتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ شیخ الوظائف اور ان کی نسلوں کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔ آمین! (پوشیدہ)
نماز ادا کرتی ہوں‘ درس اور رسالہ عبقری میں آئے اعمال‘ وظائف اور مسنون دعائیں پڑھتی ہوں۔
ماما کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہوں‘ اللہ نے مجھے عاجزی جیسی نعمت عطا کردی ہے۔ ملازمین سے اچھا رویہ رکھتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ شیخ الوظائف کی نسلوں اور تسبیح خانہ کو ہمیشہ آباد رکھے۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں